پولیو کیا ہے ، اس وائرس سے بچنے کی تدبیر
خطرناک مرض پولیو اور اس کے خلاف اقدامات
پولیو کیا ہے
پولیو ایک انتہائی متعدی اور وائرس سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ جو عام طور پر پانچ سال تک کے بچوں کو متاثر کرتی ہے۔ پولیو وائرس ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے۔ یہ وائرس متاثرہ شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ وائرس انسانی آ نتوں میں پھلنا پھولنا شروع کر دیتا ہے جہاں سے یہ اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر فالج کا باعث بنتا ہے ۔
پولیو کی ابتدائی طور پر ظاہر ہونے والی علامات میں بخار، شدید تھکاوٹ، سر درد، متلی یا قے، گردن کا ذکر جانا یا اعصابی درد شامل ہیں۔ چند کیسز میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیو اعصابی نظام پر حملہ آور ہو کر فالج کا باعث بنتی ہے اور پولیو وائرس کے حملے میں ہونے والا فالج مستقل ہوتا ہے۔ پولیو کا واحد علاج پولیو ویکسین یعنی پولیو سے بچاؤ کے قطروں کااستعمال ہے ۔
پولیو 1998 میں تقریباً تمام ہی ممالک میں پھیلا ہوا تھا۔ اور براعظم افریقہ کے تمام ممالک اس وائرس سے شدید متاثر تھے۔ سن 2011 تک پولیو صرف بھارت، پاکستان، افغانستان اور نائجیریا میں رہ گیا تھا۔ جبکہ 2011 میں بھارت کو پولیو فری ملک قرار دیئے جانے کے بعد نائجیریا میں بھی پولیو ختم ہو چکا اب پولیو صرف پاکستان اور افغانستان میں رہ گیا ہے۔
پاکستان میی پولیو کے خاتمے کا پروگرام
پاکستان میں پولیو کے خاتمے کا پروگرام گزشتہ 25 سالوں سے بچوں کو معزوری کا شکار کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کےلئے سر گرم عمل ہے۔ اس پروگرام کا ہراول دستہ 339,521 ورکرز ہیں۔ مثالی افرادی قوت کے علاوہ اس پروگرام کو دنیا کے سب سے نگرانی کے نظام کی خدمات حاصل ہیں اور معلومات کے حصول اور تجزیے کا اعلیٰ میعار کا نیٹ ورک، جدید ترین لیبارٹریز، وبائی امراض کے ماہرین اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں پبلک ہیلتھ کے نمایاں ماہرین شامل ہیں۔
باقی دنیا میں پولیو وائرس کے خاتمے کے باوجود پاکستان اور افغانستان دو ایسے ممالک ہیں جہاں یہ وائرس بچوں کی صحت اور تندرستی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ پولیو کے خاتمے کے نتیجے میں 90 کی دہائی کے اوائل میں رپورٹ ہونے والے 20 ہزار کیسز میں 99 فیصد تک کمی ہوئی۔ تاہم پولیو کے خاتمے کے لئے کام کرنے والی پاکستانی انسدادی مہم کے مطابق پاکستان میں پولیو کے آ خری کیس کی تصدیق گزشتہ سال 27 جنوری کو ہوئی تھی۔
سال 2021 کے دوران پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان کے شہر قلعہ عبداللہ سے تعلق رکھنے والے ایک بچے کے جسم سے حاصل کیے جانے والے نمونوں میں پولیو کے جراثیم پائے گئے۔ پاکستان کی انسدادی پولیو مہم کے سربراہ ڈاکٹر شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ اور یہ ملک میں اس بیماری کے خاتمے کے لیے پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پولیو کے خاتمے کے مکمل ہدف کو حاصل کرنے کے کبھی اتنا قریب نہیں پہنچا یہ بہت ہی اچھی خبر ہے کیونکہ کہ پہلا ایسا کبھی نہیں ہوا۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ کیو کے مطابق کسی ملک کو وہاں لگاتار تین سال تک وائرس سے ہونے والی اس بیماری کیسز نہ سامنے آ نے کی صورت میں ہی پولیو سے پاک ملک پولیو فری کنٹری قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کے پورے سال کے دوران ملک کے کسی بھی حصے سے کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔
پاکستان میں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو رہا
پاکستان انسدادی پولیو مہم کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2021 میں ہونے والی انسداد پولیو مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر تقریباً 4 کڑوڑ بچوں کو ویکسین پلائی گئی۔ تاہم ان کوششوں کے باوجود ملک میں پولیو کا مکمل خاتمہ تاحال نہیں ہو پایا۔
ایبٹ آباد میں ایوب میڈیکل کالج کی ایک تحقیق کے مطابق پولیو ویکسین کے بارے میں عوام میں پائی جانے والی غلط فہمیاں ، ملک کے اندر عدم تحفظ اور صحت کا ناقص نظام پولیو کے خاتمے کی مہم اور بیماری کے خاتمے میں ناکامی کی وجوہات ہیں۔
ایک دوسری تحقیق کے مطابق پاکستان میں رائج بعض مذہبی عقائد، پاکستان، افغانستان سرحد کے درمیان غیر منظم نقل و حرکت اور پولیو ویکسین کے بارے میں معلومات کی کمی کو پولیو کے خاتمے میں اہم رکاوٹوں کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
پاکستان میں بعض عسکریت پسند تنظیمیں پولیو ورکرز کی ٹیموں پر حملے کرتی رہی ہیں۔ جن میں 2012 سے پاکستان انسدادی پولیو مہم کے 70 ہیلتھ ورکرز بشمول خواتین اور کئ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
پولیو وائرس ماحول میں موجود ہے
اگرچہ پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران پولیو کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا مگر پولیو وائرس کے ماحول میں موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
پولیو ویکسین مخالف مہم
پاکستان میں حالیہ انسدادی پولیو مہم کے دوران پھیلنے والی افواہوں سے اس مہم پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔ ان افواہوں کے پھیلانے میں بڑا سوشل میڈیا کا بھی تھا۔ اور اب "پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے سوشل میڈیا پر انسداد پولیو مہم کے خلاف مواد شائع کرنے والے 174 اکاؤنٹس بند کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
پی ٹی اے کی طرف سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ادارے نے فیس بک کے 130 اور ٹوئیٹر کے 14 اکاؤنٹس اور یوٹیوب پر پولیو کی ویکسین کے خلاف افواہیں پھیلانے والی 30 ویڈیوز بلاک کر دی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت پاکستان نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک سے اپنے صفحات پر موجود پولیو ویکسین مخالف مواد ہٹانے کے لیے کہا ہے۔
پاکستان میں پولیو مہم کے فوکل پرسن بابر عطا نے درخواست میں لکھا ہے کہ ایک طرف تو پاکستان میں پولیو ختم کرنے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کے بعد سے پولیو کے کیسز میں واضح کمی آئی ہے جبکہ دوسری طرف فیس بک پر موجود صفحوں پر ہونے والے پروپیگنڈا سے اس مہم کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو کے قطروں کے حوالے سے والدین کے شبہات کو فیس بک کی ویب سائٹ پر موجود وڈیوز کے زریعے ہوا دی جاتی ہے جس کے نتیجے میں کئی والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے منع کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اسے پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جو پولیو ویکسین پینے سے محروم رہے ہیں۔
مزید انہوں نے اس بارے میں بتایا کہ ناجانے ایک افواہ کہا سے آئی اور کچھ منٹوں میں وہ کہاں تک پھیل گئی۔ ہم سب کو مل کر ایک لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا جس کے تحت فیس بک کو ایسا سارا مواد اپنی ویب سائٹ سے ہٹانے میں ہماری مدد کرنی ہوگی۔ علاوہ ازیں پوری پاکستانی قوم کو اس وائرس کے خلاف یکجا ہونا ہو گا اور پولیو ٹیمز کے تعاون پولیو کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہوگا۔
Comments
Post a Comment