حضور پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کا معراج کا سفر

حضور پاک صلَّی اللہُ تعالٰی علیْہ واٰلِہٖ وسلَّم کا معراج کا سفر

قرآن مجید اور روایات کے مطابق معراج سے مراد وہ سفر ہے جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ اور پھر آ سمانوں کی سیر کی۔ سفر معراج کے دو حصے ہیں: پہلا حصہ بیت اللہ سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر ہے جسے اسراء کہا جاتا ہے جب کہ دوسرا حصہ بیت المقدس سے عرش معلیٰ تک کا سفر ہے جسے معراج کہتے ہیں۔ معراج کے معنی بلندی اور اسراء کے معنی ہیں: چلنا یا سیر کرنا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے 

ترجمہ:

" وہ ذات پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام یعنی خانہ کعبہ سے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس تک جس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں،لے گیا تا کہ ہم اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔ بے شک وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے"

زمین سے آ سمان کی طرف سفر :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا حضرت ابو طالب اور ذوجہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے انتقال کے بعد بہت افسردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بلایا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کر سکیں۔ ایک رات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ رام فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل کو زم زم کے پانی سے دھویا۔ پھر جنت سے لائی گئی ایک سواری براق پیش کی گئی۔ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے۔ وہاں پر موجود تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی۔ اس کے بعد آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ براق پر سوار ہوئے آ سمانوں کی طرف سفر شروع کیا ۔ 


آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات :

پہلے آ سمان پر :  حضرت آ دم علیہ السلام

دوسرے آ سمان پر : حضرت یحیی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام

تیسرے آ سمان پر : حضرت یوسف علیہ السلام

چوتھے آ سمان پر  : حضرت ادریس علیہ السلام

پانچویں آ سمان پر : حضرت ہارون علیہ السلام

چھٹے آ سمان پر     : حضرت موسیٰ علیہ السلام

ساتویں آ سمان پر    : حضرت ابراہیم علیہ السلام

بیت المعمور :

ساتویں آ سمان پر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلیے بیت المعمور ظاہر کیا گیا۔ بیت المعمور خانہ کعبہ کے عین اوپر ہے ،ہر روز ستر ہزار فرشتے بیت المعمور کا طواف کرتے ہیں۔ اور جو فرشتہ ایک بار طواف کر لیتا ہے پھر قیامت تک اس کی باری نہیں آ ہے گی ۔ 

سدرتہ المنتہیٰ کی جانب سفر : 

سدرتہ المنتہیٰ ساتویں آ سمان پر بیری کا ایک درخت ہے۔ اس مقام سے آ گے فرشتے بھی نہیں جا سکتے۔ یہاں سے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرشِ معلیٰ تک کا سفر اکیلے طے کیا۔ عرش معلیٰ پر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اسی موقع پر پانچ نمازوں کا تحفہ بھی دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے بعد آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپسی کے راستے میں جنت اور جہنم دکھائیں گئیں ۔ 

معراج کی تصدیق :

اگلی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سفر کا ذکر لوگوں سے کیا تو لوگوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کا یقین نہیں کیا۔ کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آ ئے اور کہا کہ آ پ کے صاحب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ سمانوں کی سیر یعنی معراج کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہ اگر یہ الفاظ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ادا ہوئے تو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ اسی لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدیق کہا جاتا ہے ۔ 

معراج نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقع آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کا بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ وقت کا چلنا اور فاصلوں کا سمٹنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔ ہمیں نمازوں کے تحفے کی قدر کرنی چاہیے اور نماز کو باقاعدگی سے ادا کرنا چاہیے ۔



Comments

Popular posts from this blog

Top 20 beautiful tourist attractions in Pakistan

پاکستان کے روایتی کھانے