آپریشن ردالفساد کا پس منظر
پاک فوج کی محنت سے آپریشن ردالفساد کی کامیابی
پاکستانی مسلح افواج ہر مشکل وقت میں اپنے قوم کی مدد کے لیے ہمہ وقت تیار رہی ہیں۔ پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے لازوال قربانیوں کی ایک عظیم داستان رقم کی ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی دشمن سے حفاظت کرنی ہو یا پولیو ورکرز ٹیمز کی حفاظت ، یا کلبھوشن کا نیٹ ورک توڑنا ہو۔ پاکستان کی مسلح افواج ہمیشہ شاندار کردار ادا کرتی رہی ہے۔
آپریشن ردالفساد کا پس منظر
آ پریشن ردالفساد اور اس سے پہلے کیے جانے والے آ پریشنز میں بہت بڑا اور بنیادی فرق یہ ہے کہ پہلے تمام آ پریشنز ٹارگٹ تھے اور خاص علاقوں تک محدود رہے۔ لیکن ردالفساد ملک بھر میں چپھے ہوئے فسادیوں کے خلاف تھا۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں ، دانشوروں اور ادیبوں کے ساتھ ساتھ علمائے کرام نے بھی آ پریشن ردالفساد کی حمایت کی۔ تمام مکاتب فکر کے علمائے اس بات پر متفق تھے کہ دہشت گردی کرنے والے اور انھیں سہولیات فراہم کرنے والے یا دہشت گردوں کی کسی بھی طرح حمایت کرنے والے "فساد فی الارض" کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے نہ صرف فسادیوں کے خلاف فتویٰ دیا بلکہ سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ ان دہشت گردوں سے لڑنے کا بھی اعلان کیا۔
پاکستان میں شدت پسند تنظیموں اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنے کے لیے شروع کیے گئے آ پریشن ردالفساد کی وجہ سے ملک بھر میں عمومی طور پر دہشت گردی میں کمی آئی تاہم قانون نافذ کرنے والے ادارے حملوں کی زد میں رہے۔
آپریشن ردالفساد کا آغاز
فوج کے ریٹائرڈ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کی طرف سے فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد اس آ پریشن کا سلسلہ جاری ہوا۔ سال 2017 کے ابتدائی دو ماہ میں ملک میں دہشت گرد کارروائیوں میں اچانک تیزی آئی۔ لاہور میں چیئرنگ کراس پر ہونے والا واقع جس میں 18 افراد ہلاک ہوئے خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ ان بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے فوج کی طرف سے 2017 میں آ پریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا۔
ان آپریشن کے بڑے اہداف میں ملک کے مختلف علاقوں میں قائم شدت پسندوں کے سلیپر سیلز اور ان کے سہولت کاروں کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس آپریشن میں بیشتر کاروائیاں انٹیلیجنس کے تحت کی گئی جس کا دائرہ کار فاٹا اور خیبر پختونخوا سے لے کر کراچی، بلوچستان اور پنجاب تک پھیلا یا گیا۔
پاک فوج کا کہنا تھا کہ ' ردالفساد ' کا مقصد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنا اور سرحد کی سیکیورٹی کو یقینی بنانا تھا۔ دفاعی امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ ردالفساد کے تحت ہونے والی زیادہ تر کاروائیاں کامیاب رہی ہیں۔ جہاں تک دہشت گردی کی جڑ کا تعلق ہے اس پر بھی خاص توجہ دی گئی جس سے اس آ پریشن کو کامیاب بنانے میں مکمل مدد ملی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ
" جب تک ہم افغانستان کے ساتھ ایک نئی اور مثبت سوچ کے ساتھ بات چیت نہیں کریں گے اس وقت تک دہشت گردی کا مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو سکتا "
آپریشن ردالفساد کے دوران سیکیورٹی فورسز کی تربیت
آپریشن ردالفساد کے دوران سیکیورٹی اداروں کی استعداد کار میں اضافے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ 2017 سے اب تک ایف سی کے 67 نئے ونگز قائم کیے گئے جبکہ سیکیورٹی فورسز نے ملک بھرمیں چالیس ہزار ئ زائد پولیس نے جوانوں اور بائیس ہزار کے قریب خاصہ دار اہلکاروں کو تربیت دی انتہا پسندی اور نفرت انگیز مواد کے خلاف بھی موئثر اقدامات کیے گئے۔
بارڈر کی مینجمنٹ
بارڈر مینجمنٹ کو بھی یقینی بنایا گیا جس کے تحت پاک افغان سرحد پر فینسنگ کا کام 95 فیصد جبکہ ایران بارڈر پر 78 فیصد کام مکمل ہوا۔ 679 قلعے ، چیک پوسٹ اور بارڈر ٹرمینل بھی تعمیر کیے گئے۔ قبائلی اضلاع سے دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے بعد 74 مربع کیلومیٹر علاقے سے 60 ہزار سے زائد بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنا کر اسے کلئیر کیا گیا۔ شمالی وزیرستان ، اور خیبر آ پریشن کے تحت پاک افغان بارڈر پر مکمل ریاستی رٹ بحال کی گئی۔ اور ٹی ڈی پیز کی باعزت اور باحفاظت گھروں کو واپسی بھی یقینی بنائی گئی۔
آپریشن ردالفساد کے تحت ملٹری کورٹس کے تحت دہشت گردوں کے مقدمات کی تیزی سے سماعت ہوئی۔ اور 78 سے زائد دہشت گرد تنظیموں اور سرکردہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی اس دوران 1200 سے زائد شدت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس بھی لایا گیا۔
سی پیک کی حفاظت اور مردم شماری کیلیے سیکیورٹی فورسز کی فراہمی
آپریشن ردالفساد کا ایک اہم مقصد سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی تھی جس میں مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔ اور دشمن انٹیلیجنس ایجنسیز کی طرف سے پاکستان مخالف سازشوں کو بے نقاب بھی کیا گیا۔ آ پریشن ردالفساد سے شہر قائد کا امن بھی لوٹ آیا اور جرائم کی عالمی درجہ بندی میں کراچی کی رینکنگ بھی بہتر ہوئی۔ چھٹی مردم شماری کے ساتھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں پولیو مہم کے لیے بھی سیکیورٹی اداروں نے ہر ممکن سیکیورٹی فراہم کی۔
پاک فوج نے ملک نے بین الاقوامی کھیلوں کی بحالی کے ساتھ پی ایس ایل کا انقعاد بھی یقینی بنایا۔ جس میں غیر ملکی کھلاڑیوں نے فول پروف سکیورٹی انتظامات کو سراہا۔
22 فروری 2017 کو شروع ہونے والے آپریشن ردالفساد کے تحت دہشت گرد تنظیموں کے مکمل خاتمے کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔
پانچ سال پہلے جب آپریشن ردالفساد کا آغاز ہوا تھا تو ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا کہ ہر پاکستانی ردالفساد کا سپاہی ہے۔ آ ئیں مل کر اپنے پاکستان کو محفوظ اور مظبوط بنائیں۔ قم نے سپہ سالار کی کال پر لبیک کہا اور الحمد اللہ پاکستان ایک محفوظ اور باوقار ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔
This post appreciating for pak army
ReplyDelete