کشمیر ایک عالمی مسئلہ
کشمیر ایک عالمی مسئلہ
کشمیر کا نام آ تے ہی قدرت کے حسن کی رنگینیاں نظروں کے سامنے جھلکنے لگتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی تاریخی اور ثقافتی عظمت کے کئی خوبصورت رنگ نظر آ نے لگتے ہیں۔ کشمیر کی برف سے ڈھکی وادیاں، چاندی جیسے پانی سے کھیلتے دریا، آ سمان پر کانوں میں باتیں کرتے چنار، آ ج بھی کشمیر کی خوبصورتی کی زندہ مثال ہے۔ لیکن اس کی خوبصورتی آہستہ آہستہ آزادی کے دشمن عناصر کے مضموم عظائم کی نظر ہو رہی ہے۔ اس کے چاندی جیسے پانی میں شہیدوں کا لہو مل چکا ہے اس کے چناروں سے پیار محبت کے خوبصورت گیتوں کی جگہ آ گ کے انگارے نکل رہے ہیں۔ اس کی ہواؤں سے امن اور پیار کی جگہ آ زادی کی خواہش کرنے والوں پر ہونے والے ظلم و بربریت کی سسکیاں ہواؤں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ کشمیر آ ج بھی بالکل اسی طرح ایک عالمی مسئلہ ہے جیسے وہ شروع دن سے تھا۔ بھارت اس مسئلے کو جتنا مرضی اپنا اندرونی مسئلہ کہے لیکن ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ مسئلہ اب صرف بھارت کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ کشمیر میں رہنے والے ان تمام لوگوں کا مسئلہ ہے، جو آ زادی حاصل کرنے کے لیے ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔
1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی اس وقت کشمیر میں مسلمانوں کی 85 فیصد آ بادی تھی۔ دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر ابھرنے والے تقسیم کے فارمولے کے تحت کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ 3 جون 1947 کے اعلان آ زادی کی وجہ سے وزارتی مشن برطانیہ کے حکم کے مطابق ہندوستان کی دیسی ریاستوں کو یہ چھوٹ دی گئی کی وہ آ زادی ہند کے بعد پاکستان بننے پر اپنی ریاستوں کو پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک ریاست کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں رہنے والے لوگ تو اپنی آ زادی کی جنگ اس دن سے لڑ رہے ہیں جب انگریزوں نے کشمیر کو 75 لاکھ نانک شاہی کے بدلے مہاراجہ ہری سنگھ کے جاگیر دار گلاب سنگھ کے ہاتھوں بیچ دیا۔ 1846ء سے لے کر 1947ء تک کشمیری آ زادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہے۔ مہاراجہ گلاب سنگھ، مہاراجہ نبیر سنگھ، مہاراجہ پرتاب سنگھ اور مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف وقفے وقفے اور مختلف حوالوں سے تحریکیں چلتی رہیں۔ 1947 میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی اس وقت بھارت نے پنجاب باؤنڈری کمیشن سے ایک غلط فیصلہ کروایا تب کشمیر کو زبردستی بھارت میں شامل کر لیا گیا۔ جموں اور کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کو نہ صرف شہید کیا گیا بلکہ انھیں اپنا گھر بار چھوڑنے پر بھی مجبور کیا گیا۔
کشمیر پاکستان کے لیے کیوں ضروری ہے؟
84494 مربع میل پر ایک محتاط اندازے کے مطابق سوا کروڑ کی آ بادی کا یہ خطہ پاکستان کے لیے اپنی تاریخی اور ثقافتی حثیت سے شہ رگ کا درجہ دکھتا ہے۔ کشمیر کو جتنے رستے بھی جاتے ہیں وہ پاکستان کی سرزمین سے جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کشمیر سے نکلنے والے تینوں دریا پاکستانی کی سرزمین سے ہی گزرتے ہیں۔ پاکستان کی معاشیات انھی دریاؤں کی وجہ سے پوری ہوتی ہے۔ اگر ان دریاؤں کا پانی پاکستان کی زمین کی پیاس نہ بھجائے تو پاکستان کے بہتے علاقے بنجر بن جائیں۔ علاو ازین کشمیر پاکستان کے لیے اس وجہ سے بھی ضروری ہے کہ وہاں 85 فیصد آ بادی مسلمانوں کی ہے۔ ان کا رہن سہن اور ثقافت پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ ہندوستان میں رہنے والے ہندوؤں کی نیت شروع سے ہی کشمیر کے لیے خراب تھی۔ یہ ان کی ذہنیت اور نیت کا فتور تھا جو انہوں نے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنا کر ساری دنیا کو دکھا دیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر میں کہا :
" مسئلہ کشمیر ایک بڑا ہی نازک مسئلہ ہے۔ کوئی بھی انصاف پسند قوم یا ملک اسے نظر انداز نہیں کر سکتا۔ کشمیر تمدنی، ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی، معاشرتی اور سیاسی طور سے پاکستان کا حصہ ہے۔ جس بھی نقطے سے پاکستان پر نظر دوڑائی جائے، یہ حقیقت اور سچ واضح ہو جاتا ہے کہ سیاسی اور دفاعی حثیت سے کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور کوئی بھی ملک یا قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کی نظر کر دے"۔
کشمیر پاکستان کے اوپر کا علاقہ ہے تو اس وجہ سے بھی بھارت اسے اپنے ہاتھوں گوانا نہیں چاہتا۔ کشمیر میں بیٹھ کر پاکستان کا پانی بند کر کے نہ صرف اس کی سر زمینوں کو بنجر کیا جا سکتا ہے بلکہ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے بھی یہ علاقہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اسی وجہ سے کشمیر کا یہ علاقہ پاکستان کے لیے ہر طرح سے بہت ضروری ہے۔
مسئلہ کشمیر پر بھارت کا شور شرابہ
بھارت نے مکاری اور عیاری سے کشمیر کو اپنے ملک کا نہ ٹوٹنے والا حصہ بنا لیا۔ لیکن پھر بھی کشمیریوں کی نہ بھولنے والی قربانیوں اور نہ ختم ہونے والے جذبوں کو نہ دبا سکا۔ انہوں نے کشمیر پر بے تحاشہ ظلم کیے لیکن آ ج بھی بھارت شور کر رہا ہے کہ کشمیریوں کی آواز آ زادی کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ ہے۔ بھارت اپنے شور شرابے سے بیرونِ ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے تا کہ آ زادی کی طرف بڑھنے والی کشمیریوں کی تحریک کو روکا جا سکے۔ بھارت کبھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بجائے ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز دیتا ہے تو کبھی مزاکرات کا مشورہ دیتا ہے تو کبھی وہ تھرڈ آ پشن یعنی خود مختار کشمیر کا ڈھونگ رچاتا ہے۔
نئی صورت حال اور کشمیر
کشمیر آ ج بھی بھارت کے ظلم کا شکار ہے۔ بھارت ایک طرف تو اقوام متحدہ کی ساری قرادادوں سے مکر رہا ہے تو دوسری طرف شور کر کے لوگوں کی نظریں ریاست پر ہونے والے ظلم و ستم سے ہٹانا چاہتا ہے۔ کشمیر کے بہادر بیٹے آ زادی کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں جب کہ بھارت غیر انسانی حربے استعمال کر کے ان کی آواز کو دبانا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے انہوں نے " پکڑو اور مار دو" دی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ کشمیر کی وادی میں مجاہدوں اور شہیدوں کے خون سے رنگے ہوئے گلاب اگ کر آ زادی کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ کشمیر کی ہواؤں سے آ زادی کی مہک آ رہی ہے۔ شاید اس لئے ہی بھارت نے ظلم کی حد کی ہوئی ہے۔ اس کے ظلم کی حد سے ہی تباہی کی شروعات ہوتی ہے۔
Comments
Post a Comment