خانہ کعبہ اور اس کے مقامات

 خانہ کعبہ اور اس کے مقامات

خانہ کعبہ (بیت اللہ):۔ 



خانہ کعبہ (بیت اللہ) اللّٰہ تعالیٰ کا گھر ہے جس کا حج اور طواف کیا جاتا ہے۔ یہ پہلا گھر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے زمین پر بنایا۔ 

سورہ آ ل عمران میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

" اللّٰہ تعالیٰ کا پہلا گھر جو لوگوں کےلئے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے جو تمام دنیا کے لیے برکت وہدایت والا ہے "

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم الہٰی ہوا کہ مکہ کی طرف جاؤ تب آ پ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو لے کر روانہ ہو گئے اور اس مقام پر پہنچے جہاں اب مکہ واقع ہے۔ یہاں کوئی عمارت نہ تھی اور نہ پانی تھا اور نہ یہاں کوئی رہتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیوی بچے دونوں کو یہاں بٹھا دیا ایک مشکیزہ اور کھجوریں پاس رکھ دیں اور خود شام کی طرف روانہ ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دوسری بار مکہ آ ئے تو قیام نہ کر سکے لیکن جب تیسری بار تشریف لائے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ یہاں ایک گھر تعمیر کرو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ اطاعت کیجیے۔ 

گھر کی تعمیر شروع ہوئی حضرت اسماعیل علیہ السلام پتھر لاتے جاتے اور حضرت ابراہیم گھر بناتے جاتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل کی۔ انہوں نے اس گھر کی تعمیر بغیر مٹی کے گارے کے کی بس پتھر پر پتھر رکھتے چلے گئے اس وقت خانہ کعبہ کاچھت اور دروازہ نہیں تھا۔ جب حضرت ابراہیم خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہو گئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک ایسا پتھر لانے کو کہا جو آ غاز طواف کے لیے نشانی کے طور پر رکھا جا سکے۔ یہ پتھر حضرت جبرائیل علیہ السلام ابو قبیس کی پہاڑی سے لائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے اس مقام پر رکھ دیا جہاں اب وہ قائم ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے انہیں تمام مقامات دکھائے اور پھر اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ لوگوں کو حج کے لیے پکاریں۔ 

حضرت ابراہیم نے کہا:" اے پروردگار ! میری آواز لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟"

اللہ تعالیٰ نے فرمایا: " آ پ پکاریں ہم آ پ کی آ واز لوگوں تک پہنچا دیں گے"۔ 

تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابو قبیس کی پہاڑی پر چڑھ کر پکارا:

"لوگو! اللہ تعالیٰ نے ایک گھر بنایا ہےاور تم پر حج فرض کیا ہے لہذا تم اپنے پروردگار کی آ واز پر لبیک کہو"۔ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابو قبیس کی پہاڑی پر چڑھ کر دائیں اور بائیں شمال اور جنوب منہ کر کے آ واز دی اور لوگوں نے لبیک کہا۔ 

طاہر الکروی لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ 11 مرتبہ تعمیر ہوا۔ فرشتوں نے بنایا، حضرت آ دم علیہ السلام نے بنایا، حضرت شیت نے تعمیر کیا، حضرت ابراہیم نے تعمیر کیا،   عمالقہ نے بنایا، جرہم نے تعمیر کیا، قصی نے بنایا، عبداللہ بن زبیر نے تعمیر کیا، حجاج نے بنایا پھر سلطان مراد اربع نے بنایا جو آل عثمان میں سے تھا۔ آخری مرتبہ خلافتِ عثمانیہ کے سلطان مراد چہارم نے 1639 ء میں اس کی تعمیر کروائی۔ یہی خانہ کعبہ کی موجودہ شکل ہے ایک سال میں یہ تعمیر مکمل ہوئی۔ سلطان مراد کی تعمیر ہمارے اس دور تک باقی ہے۔ 

خانہ کعبہ کی پیمائش :۔ 

آج خانہ کعبہ کی اونچائی 15 میٹر اور چوڑائی ہر جانب سے مختلف پیمائش رکھتی ہے۔ مغربی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور گیارہ سینٹی میٹر ہے۔ مشرقی جانب اس کی چوڑائی 12 میٹر اور 84 سینٹی میٹر ہے۔ جنوبی جانب خانہ کعبہ کی چوڑائی 11 میٹر اور 52 سینٹی میٹر جبکہ شمالی جانب 11 میٹر اور 20 سینٹی میٹر ہے۔

مقام حطیم:۔



یہ دراصل بیت اللہ کا ہی حصہ ہے۔ لیکن قریش کے پاس حلال مال میسر نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے تعمیر کعبہ کے وقت یہ حصہ چھوڑ کر کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں خانہ کعبہ میں داخل ہو کر نماز پڑھنا چاہتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر حطیم میں لے گئے اور فرمایا:

 "جب تم بیت اللہ میں نماز پڑھنا چاہو تو یہاں حطیم میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ لو یہ بھی بیت اللہ شریف کا حصہ ہے۔ تیری قوم  نے بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حلال کمائی میسر نہ ہونے کی وجہ سے اسے چھت کے بغیر تھوڑا سا تعمیر کرا دیا تھا"

بیت اللہ کی چھت سے حطیم کی طرف بارش کے پانی کے گرنے کے لیے جو پرنالہ لگا ہے اسے "میزاب رحمت" کہتے ہیں۔ 

حجرا اسود:۔ 



حجرا اسود قیمتی پتھروں میں سے ایک پتھر ہے۔ حجرا اسود جنت سے اترا ہوا ایک پتھر ہے جو کے دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی روشنی ختم کر دی ہے۔ اگر یہ پتھر آ ج تک روشن ہوتا تو مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز روشن ہوتی۔ حجرا اسود کے استلام سے ہی طواف شروع کیا جاتا ہے اور اسی پر ختم کیا جاتا ہے۔ حجرا اسود کا بوسہ لینا یا اس کی طرف دونوں یا داہنے ہاتھ سے اشارہ کرنا استلام کہلاتا ہے۔ 

مقام ملتزم:۔ 



ملتزم کے معنی ہیں چمٹنے کی جگہ۔ حجرا اسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان ڈھائ گز کے قریب کعبہ کی دیوار کا جو حصہ ہے وہ ملتزم کہلاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس جگہ چمٹ کر دعائیں مانگی تھی ، یہ دعاؤں کے قبول ہونے کی خاص جگہ ہے۔ 

رکن یمانی:۔ 



بیت اللہ کے تیسرے کونے کو رکن یمانی کہتے ہیں۔ رکن یمانی کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔ رکن یمانی پر 70 فرشتے مقرر ہیں جو شخص وہاں جا کر یہ دعا کرتے ہیں۔ " اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا فرما اور آ خرت میں بھی نیکی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا"۔ تو وہ سب فرشتے آمین کہتے ہیں۔ 

مقام ابراہیم:۔ 



یہ ایک پتھر ہے جس پہ کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیا۔ اس پتھر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کے نشانات ہیں۔ یہ کعبہ کے سامنے ایک جالی دار شیشے کہ چھوٹے سے قبہ میں محفوظ ہے جس کے اطراف میں پیتل کی خوشنما جالی نصب ہے۔ حجراسود کی طرح یہ پتھر بھی جنت سے لایا گیا ہے۔ طواف سے فراغت کے بعد طواف کی 2 رکعت اگر سہولت سے مقام ابراہیم کے پیچھے جگہ مل جائے تو مقام ابراہیم کے پیچھے ہی پڑھنا بہتر ہے۔ 

مسجد حرام:۔ 



مسجد حرام مسلمانوں کی سب سے بڑی مسجد مقدس شہر مکہ مکرمہ میں واقع ہے۔ مسجد حرام کے درمیان میں بیت اللہ ہے جس کی طرف رخ کر کے دنیا بھر کے مسلمان ایمان کے بعد سب سے اہم رکن یعنی نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔دنیا میں سب سے پہلی مسجد مسجد حرام ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے ک  حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجد حرام۔ حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ اس کے بعد کون سی؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مسجد اقصیٰ۔ 

صفا و مروہ :۔ 



صفا و مروہ دو پہاڑیاں ہیں۔ صفا کو شیشوں کے حصار میں لیا گیا ہے جبکہ مروہ کا تھوڑا حصہ نظر آتا ہے۔ صفا و مروہ کے درمیان حضرت ہاجرہ نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کیلیے پانی کی تلاش میں 7 چکر لگائے تھے۔ یہ اس زمانے میں صفا و مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جہاں سے ان کا بیٹا نظر نہیں آتا تھا۔ سیدہ ہاجرہ اس وادی میں تھوڑا تیز دوڑی تھی۔ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی اس عظیم قربانی کو قبول فرما کر قیامت تک آنے والے تمام مرد حاجیوں کو تھوڑا تیز چلنے کی تعلیم دی۔ سعی کا ہر چکر تقریباً 395  میٹر لمبا ہے۔ یعنی 7 چکر کی کل مسافت تقریباً پونے 3 کلو میٹر بنتی ہے۔ نیچے کی منزل کے مقابلہ میں اوپر والی منزل پر ازدحام کچھ کم رہتا ہے۔ 

مقام منی:۔ 



منی مکہ مکرمہ سے 4,5 کلو میٹر کے فاصلے پر دو طرفہ پہاڑوں کے درمیان ایک بہت بڑا میدان ہے۔ حجاج کرام 8 ذالحجہ کو اور اسی طرح 11,12,13 ذوالحجہ کو منی میں قیام فرماتے ہیں۔ منی میں ایک مسجد مسجد خیف ہے اس مسجد کے قریب جمرات ہیں جہاں حجاج کرام کنکریاں مارتے ہیں۔ منی ہی میں قربان گاہ ہے جہاں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ 

میدان عرفات:۔ 



عرفات منی سے تقریباً 8, 10 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔میدان عرفات کے شروع میں مسجد نمرہ نامی ایک بہت بڑی مسجد ہے جس میں زوال کے بعد فوراً خطبہ ہوتا ہے پھر ایک 

ازاں اور دو اقامت سے ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس جگہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ دیا تھا جسے" خطبہ حجتہ الوداع"  کہتے ہیں۔ مسجد نمرہ کا اگلا حصہ عرفات کی حدود سے باہر ہے۔ منی و مزدلفہ حدود حرم کے اندر، جبکہ عرفات حدود حدود حرم سے باہر ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں حج کا سب سے اہم رکن ادا ہوتا ہے۔ جس کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وقوف عرفہ ہی حج ہے۔

مقام مزدلفہ:۔



9 ذوالحج کو غروب آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آ کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ادا کرتے ہیں۔ یہاں رات کو قیام کرتے ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ فرمان الٰہی ہے:

 "جب تم عرفات سے واپس آو تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو"۔ 

وادی محسر:۔ 



منی و مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس کو وادی محسر کہتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق یہاں سے گزرتے وقت تھوڑا تیز چلا جاتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ بادشاہ کے لشکر کو ہلاک وتباہ کیا تھا جو بیت اللہ کو دھانے کے ارادے سے آ رہا تھا۔ 

مقام جمرات:۔ 



یہ منی میں 3 مقامات ہیں جہاں اب دیوار کی شکل میں 3 ستون ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں ان جگہوں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجد خیف کے قریب ہے اسے" جمرہ اولی" کہتے ہیں اس کے بعد بیچ والے جمرہ کو " جمرہ وسطی" اور اس کے بعد مکہ مکرمہ کی طرف آ خری جمرہ کو" جمرہ عقبہ" یا جمرہ کبریٰ" کہا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان 3 مقامات پر شیطان نے بہکانے کی کوشش کی تھی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان 3 مقامات پر شیطان کو کنکریاں ماری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عمل قیامت تک آنے والے حاجیوں کے لیے لازم قرار دے دیا۔ رمی یعنی جمرات پر کنکریاں مارنا حج کے واجبات میں سے ایک ہے۔ 

مولد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:۔ 



مروہ کے قریب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں 12 ربیع الاول کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم "رحمت للعالمین" بن کر آ ئے تھے۔ اس جگہ ان دنوں لائبریری قائم ہے۔ 

غار ثور:۔ 



یہ غار جبل ثور کی چوٹی کے پاس ہے۔ یہ پہاڑ مسجد حرام سے تقریباً 10 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور غار ایک میل کی چڑھائی پر واقع ہے۔ 

غار حرا:۔ 



یہ غار جبل نور پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ مکہ مکرمہ سے منی جانے والے راستوں پر مسجد حرام سے تقریباً 4 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اس کی اونچائی تقریباً 2 ہزار فٹ ہے۔ یہاں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا۔ سورہ اقراء کی چند ابتدائی آیات اسی غار پر نازل ہوئی تھی۔ 

جنت المعلیٰ:۔ 



یہ مکہ مکرمہ کا قبرستان ہے جہاں ان المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، تابعین، تبع و تابعین اور اولیاء اللہ مدفون ہیں۔ 







Comments

Popular posts from this blog

پاکستان کے روایتی کھانے

Top 20 beautiful tourist attractions in Pakistan