سید بلھے شاہ اور ان کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری

 سید بلھے شاہ اور ان کی صوفیانہ و عارفانہ شاعری




پیدائش اور تعلیم و تربیت:۔ 

نئ تحقیق کے مطابق سید بابا بلھے شاہ جی  کا اصل نام تھا، پر آ پ بلھے شاہ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ آ پ 3 مارچ 1680ء میں پنجاب کے قدیم تاریخی شہر بہاولپور کے گاؤں اچ گلانیاں میں پیدا ہوئے۔ آ پ اچ گلانیاں سے ہجرت کر کے پہلے ملکوال پھر پانڈو کے،جو لاہور قصور روڈ پر واقع ہے مقیم ہوئے۔  

بابا بلھے شاہ نے پاک صاف اور دینی ماحول میں آ نکھ کھولی ابتدائی تعلیم آ پ نے اپنے والد گرامی سشی شاہ محمد درویش سے حاصل کی۔ پھر قرآن ،فقہاور حدیث کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے دور کی بہترین درسگاہ قصور میں داخل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے حافظ غلام مرتضیٰ قصوری کی شاگردی اختیار کی۔ 


شاہ عنایت کی بیعت:۔ 


مرشد کی تلاش اور روحانی تعلیم کی پیاس بجھانے کے لئے بزرگوں کی زیارت کا شرف حاصل کیا پر دل کو سکون شاہ عنائت کی بیعت کر کے ملا اور یہی سے سید بابا بلھے شاہ نے حقیقت کی تلاش میں تصوف اور عرفان کے سفر طے کیے۔ 

سید بلھے شاہ ایک سچے اور پکے مسلمان تھے۔ وہ روحانیت کی آ خری حدوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ ربی ذکر وفکر آپ کی زندگی میں رچا بسا ہوا تھا۔ وہ سلوک کی راہ کے ایسے مسافر تھے جنہوں نے فنافی المرشد ، فنافی الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فنافی اللہ کی منازل اپنے جزبے عمل اور لگن سے حاصل کیں۔ وہ اپنے روحانی مشن میں اتنا آ گے نکل چکے تھے کہ عمر بھر انہوں نے شادی نہیں کی پوری زندگی مرشد کی خدمت اور ان کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر گزار دی۔ عمر کا کچھ حصہ بہاولپور ،قصور، لاہور اور بٹالہ کے علاقے میں رہ کر گزارا۔


پنجابی ادب میں بابا بلھے شاہ کا مقام:۔


آ پ کا کلام سی حرفی، کافی،گنڈھاں، ستوارے، فرد، دوہڑے اور بارہ ماہ کی شکل میں موجود ہیں۔ جو سیکنڑوں بار شائع ہو چکا ہے۔ بلھے شاہ کے فن اور فکر کے بارے میں پنجابی زبان کے علاوہ اردو، انگریزی، فارسی اور مشرقی پنجاب میں پنجابی پر بہترین کام ہو چکا ہے۔

سید بلھے شاہ کا کلام پنجابی زبان کے کلاسیکی ادب میں بہت اونچی حیثیت کا حامل ہے۔ان کا انداز، فکر، سوچ اور خیال کئ حوالوں سے تعریف کے قابل ہے۔ بلھے شاہ کے کلام کی کچھ خوبیاں درج ذیل ہیں:


وحدت الوجود اور عشق حقیقی:۔ 

 

پنجابی صوفیانہ شاعری زیادہ تر وحدت الوجود کے اردگرد گھومتی ہے۔ بلھے شاہ کا کلام اور فلسفہ بھی وحدت الوجود کے بارے میں ہے۔ آ پ کے کلام کا نچوڑ توحید ہے اور ان کے نقطہء نظر کے مطابق  حق کے سوا اور کوئی شے جچتی ہی نہیں۔ وحدت الوجود کی تفسیر بلھے شاہ کے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں ملتی ہے۔ 

بابا بلھے شاہ فرماتے ہیں:

         رانجھا رانجھا کردی میں ہن آ پے رانجھا ہوئی

         سدو نی مینوں دھیدو رانجھا ہیر نہ آ کھو کوئی 

سید بلھے شاہ کی شاعری میں اللہ تعالیٰ سے لگن اور محبت کی بات بڑے اعلیٰ انداز میں پیش کی گئی ہے۔ آ پ عشق و مستی میں اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتے ان کی شاعری عشق حقیقی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 


عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مرشد کی طلب:۔ 


بلھے شاہ کے کلام میں مکی مدنی ماہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے بہت زیادہ عقیدت اور چاہت کا اظہار ملتا ہے۔ والی کائنات کی زات میں فنا ہو کر بلھے شاہ نے حقیقت کی راہ نکالی۔ بلھے شاہ اپنے مرشد سے بے پناہ عقیدت کا اظہار کرتے ہیں وہ کسی وقت بھی اپنے مرشد شاہ عنایت قادری کی محفل سے الگ نہیں ہوئے۔ شاہ حسین کی طرح بلھے شاہ بھی منفرد اصول کے مالک ہیں ان جیسا نڈر اور بے باک لہجہ کسی اور شاعر کے پاس موجود نہیں۔ 


بلھے شاہ کا وصال:۔ 
 

آ پ کی انسانیت، عشق و آ زادی کا سفر 77سال کی عمر میں1757ء کو تمام ہوا۔ آ پ کی نماز جنازہ ایک بڑی مذہبی شخصیت قاضی حافظ سید ہمدانی نے پڑھائی۔ آ پ قصور میں مدفون ہیں۔ ہر سال آ پ کے عقیدت مند حضرات آ پ کے مزار پر آ پ کا کلام گا گا کر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ 

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

Top 20 beautiful tourist attractions in Pakistan

پاکستان کے روایتی کھانے