غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پس منظر
غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پس منظر
دین اسلام کے مخالفین آ نحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات و سرایا اور اسلامی جہاد پر معترض ہوتے اور یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کا مقصد زبردستی اور تلوار کے زور سے اسلام پھیلانا اور دنیاوی مفادات ومقاصد کا حصول رہا ہے لیکن یہ دعویٰ یکسر باطل ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات و سرایا دنیاوی وسفلی مقاصد و مفادات کے لیے ہر گز نہ تھے اور نہ ہی ان کا مقصد زبردستی اسلام پھیلانا تھا۔ اسلامی جہاد، دنیاوی وسفلی مفادات کے لیے لڑی جانے والی جنگوں سے بلکل مختلف ہے۔
غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد وہ جنگیں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں لڑیں اور جنگوں کا مقصد دین کی حفاظت اور امن و امان کا قیام تھا۔ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اس کے دین کی سربلندی کے لئے جو کوششیں کی جائے اسے جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ جہاد ایک اہم اسلامی فریضہ ہے۔
ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے کفار مکہ کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ کے یہود اور دیگر اسلام دشمن قبائل بھی سخت پریشان تھے۔ وہ کسی طور بھی مسلمانوں کو ایک امت تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اپنے اسی ناپاک ارادے کو انجام دینے کے لیے انہوں نے مسلمانوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ جن میں تین بڑے غزوات " غزوہ بدر، غزوہ احد، اور غزوہ خندق" نمایاں ہیں۔ ان غزوات میں کافروں نے اسلام کے خلاف اپنی تمام تر کوششیں صرف کیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غزوات کی تعداد 27 ہے۔ ان غزوات کا مقصد مذہبی آ زادی کو یقینی بنانا،مخالفین اسلام کے حملوں سے اسلام اور اہل اسلام کا دفاع کرنا،مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے چھڑانا، فتنہ وفساد کا خاتمہ اور قیام امن، سازشیوں اور غدار عناصر کی سرکوبی کرنا، اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند کرنا اور اسلام کو غالب کرنا اور حکم الہٰی کی تعمیل کرنا تھا۔
پہلا معرکہ غزوہ بدر:۔
غزوہِ بدر حق وباطل کے درمیان ہونے والا پہلا معرکہ ہے۔ یہ غزوہ 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو مسلمانوں اور کافروں کے درمیان ہوا۔ کفار مکہ کے لشکر کی قیادت ابو جہل کر رہا تھا، جو فوجی ساز و سامان سے لیس ایک ہزار کا جنگی لشکر لے کر میدان بدر کی طرف روانہ ہوا۔ اسلامی لشکر 313 مجاہدین پر مشتمل تھا، جو سواریوں اور اسلحے کی شدید کمی کے باوجود جذبہ ایمانی سے سرشار تھا۔ اس غزوہِ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کمیابی عطا فرمائی۔ قرآن مجید میں غزوہِ بدر کے دن کو یوم الفرقان یعنی فیصلے کا دن کہا گیا ہے۔ غزوہِ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آ سمان سے فرشتے بھیج کر مسلمانوں کی مدد فرمائ۔
غزوہِ احد کا معرکہ:۔
غزوہِ احد 3 ہجری کو احد کی پہاڑی کے قریب ہوا۔ اس جنگ میں کافروں کا سردار ابوسفیان تھا۔ اس لشکر کی تعداد 3 ہزار تھی۔ اسلامی لشکر میں 700 مجاہدین شامل تھے۔ حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں اسلامی لشکر نے احد پہاڑ کے قریب پڑاؤ ڈالا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو 50 تیر اندازوں کے ساتھ مقرر فرمایا اور انھیں درہ نہ چھوڑنے کی تلقین فرمائی۔ مسلمانوں نے نہایت بہادری سے کافروں کا مقابلہ کیا۔
سورہ البقرہ میں فرمان الٰہی ہے،
"اور ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فساد باقی ن رہے اور سارا دین اللہ ہی کا ہو جائے"
مسلمانوں کی بہادری دیکھ کر کفار مکہ بے بس ہو گئے اور جنگ سے فرار ہونے لگے۔
سورہ التوبہ میں فرمان الٰہی ہے،
" وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اور مشرک پڑے برا مانیں"
جب تمام کفار ہار مان کر فرار ہونے لگے تو یہ دیکھ کر درے پر موجود مجاہدین مال غنیمت سمیٹنے کے لیے درے سے نیچے آ ئے۔ کفار نے جب درہ خالی دیکھا تو پلٹ کر مسلمانوں پر حملہ کیا۔ اس اچانک حملے سے تقریباً 70 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہو گئے۔ شہداء میں حضرت امیر حمزہ ، مصعب بن عمیر اور عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنھم جیسے نامور صحابہ کرام بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی زخمی ہوگئے۔ حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکل و صورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہت زیادہ مشابہ تھے۔ جب وہ شہید ہوئے تو افواہ پھیل گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر اسلامی لشکر بکھر گیا۔ اس نازک موقع پر آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی لشکر کو دوبارہ جمع کیا اور کامیابی کے نشے میں مکہ مکرمہ واپس جانے والے کفار کے لشکر کا جارحانہ انداز میں تعاقب کیا۔ کفار مکہ کو جب یہ خبر ملی کہ اسلامی فوج ان کے تعاقب میں آ رہی ہے تو انھوں نے مسلمانوں کے غیظ وغضب سے بچنے کے لیے مقابلہ کرنے کی بجائے راہ فرار اختیار کی اور واپس مکہ آ کر دم لیا۔
غزوہِ خندق کا معرکہ:۔
غزوہِ خندق 5 ہجری میں ہوا۔ قریش مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کی۔ اس خبر کی اطلاع ملتے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشورے سے مدینہ منورہ کے گرد خندق کھودی۔ جب ابو سفیان نے 10 ہزار کے لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کیا تو وہ خندق دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کافروں نے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا اور خندق عبور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ مدینہ منورہ کے گرد محاصرہے کو کافی دن گزر چکے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی غیبی مدد کی۔ ایک رات شدید طوفان آ یا، جس نے دشمنوں کے خیموں کو اکھاڑ دیا۔ وہ راتوں رات میدان خالی کر کے بھاگ گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فتح سے نوازا۔ غزوہِ خندق کو غزوہِ احزاب بھی کہا جاتا ہے۔
ان غزوات میں آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہترین حکمت عملی اپنانے کے ساتھ ساتھ مساوات ،رحمدلی اور عفودر گزر کی ایسی مثال پیش کی ،جس سے نہ صرف دشمنوں کو شکست ہوئی بلکہ کئ لوگوں کو راہ ہدایت پر لانے کا سبب بنی۔ پورے عرب پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم ہو گیا۔ مسلمانوں کے یقین اور ایمان میں اضافہ ہوا۔ مسلمانوں کو اسلامی تبلیغ کرنے کا بھرپور موقع میسر آ یا۔
غزوات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہمارے لئے ایک اہم سبق ہے کہ فتح وشکست کا انحصار تعداد پر نہیں, بلکہ ایمانی جذبے پر ہے اللہ تعالیٰ اخلاص کے ساتھ حق پر قائم رہنے والوں کی ہمیشہ مدد کرتا ہے ،انھیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔
Informative post
ReplyDelete