سر چشمہ ہدایت حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ



سر چشمہ ہدایت حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ






حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ راشد ہیں۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی اور داماد ہیں۔ قبول اسلام کے وقت آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر دس برس تھی۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو ہاشم سے تھا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد کا نام حضرت اب طالب اور والدہ کا نام حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اللہ تعالیٰ عنھا تھا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا لقب حیدر،کنیت ابو تراب اور ابوالحسن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیا۔ اللہ تعالٰی نے ان دونوں کو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما جیسے مایہ ناز بیٹے عطا فرمائے، جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنتی نوجوانوں کے سردار قرار دیا۔ 


حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سیرت و کردار:۔ 


حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن ہی سے پاکیزہ اخلا ق کے مالک تھے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے حد سخی، فیاض اور ایثار کرنے والے تھے۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امانت و دیانت میں بے مثال تھے۔ شجاعت و بہادری اور سخاوت حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سب سے نمایاں خوبی تھی۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام غزوات میں بہادری کے خوب جوہر دکھائے، جن میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کفار مکہ کے نامی گرامی سرداروں کو جہنم واصل کیا۔ غزوہِ خیبر میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشہور یہودی سردار "مرحب" کو پہلے ہی وار میں قتل کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے یہودیوں کا مشہور قلعہ" ناعم " فتح ہوا۔ اسی وجہ سے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو " فاتح خیبر" اور "اسد اللہ " یعنی اللہ تعالیٰ کا شیر کہا جاتا ہے۔ 


حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچپن ہی سے پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتبِ وحی اور حافظ قرآن تھے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن مجید کی ہر آیت کے شان نزول کے بارے میں جانتے تھے۔ علم فقہ میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ بھی آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے دست مبارک سے تحریر کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی تھی۔ تینوں خلفائے راشدین کے دور میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قاضی القضات یعنی چیف جسٹس اور مجلس شوریٰ کے ممتاز رکن رہے۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شمار السابقون الاولون اور بیعت رضوان کرنے والے صحابہ میں بھی ہوتا ہے۔ 

9 ہجری میں نجران سے مسیحیوں ایک وفد مدینہ منورہ آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی دعوت قبول کرنے کی بجائے وہ آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بحث کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کہا کہ اگر تمہیں میری باتوں میں کوئی شک ہے تو آو مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ قرآن مجید میں اس واقعے کا ذکر آ یت مباہلہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:

'تو کہ دیجئے! آ ؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں، تم اپنے عورتوں اور بیٹوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آ ئیں اور تم خود بھی آ ؤ، پھر سب اللہ تعالیٰ سے دعاوالتجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت بھیجیں"

اگلی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہلِ بیت کے ساتھ مباہلے کے لیے میدان میں پہنچے۔ عیسائیوں کو آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مباہلے کی جرائت نہ ہوئی اور انہوں نے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صلح کی درخواست کی جسے آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ 


خدمات اور کارنامے:۔ 


حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور خلافت تقریباً 4 سال 9 ماہ ہے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دور اندیشی اور حکمت عملی سے مدینہ منورہ میں امن قائم کیا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک کی حفاظت کے لیے کئی بڑی اور چھوٹی چھاؤنیاں قائم کیں۔ دریائے فرات پر ایک پل تعمیر کروایا ، مساجد اور قلعے تعمیر کروائے۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کی حفاظت کا اہتمام کیا۔ قاضیوں کو دین حق کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عدل و انصاف سے متاثر ہو کر کئ لوگوں نے اسلام قبول کر کیا۔ ایک دفع آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زرہ گم ہو گئی۔ پتہ چلا کہ ایک یہودی کے پاس ہے۔ آ پ نے عدالت میں دعویٰ کیا مگر گواہ آ پ کے بیٹے اور غلام تھے۔ قاضی نے قرابت داری کی بنا پر بیٹے اور غلام کی گواہی قبول نہ کی اور فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا۔ یہودی نے عدل وانصاف کا یہ غیر معمولی مظاہرہ دیکھا تو اسلام کے حقانیت کی گواہی دیتے ہوئے دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سے علاقے فتح کیے اور اسلامی ریاست کو وسعت دی۔ 


شہادت حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ:۔ 

                               


سن 40 ہجری رمضان المبارک میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوفہ کی ایک مسجد میں نماز فجر ادا کر رہے تھے۔ عبد الرحمن بن ملجم نے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلوار کا وار کر کے زخمی کیا۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 21 رمضان المبارک کو شہید ہوئے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آ خری آ رام گاہ عراق کے شہر نجف میں ہے۔ 

حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ دین اسلام کی سر بلندی کے لیے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہے۔ غزوہِ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

"اے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھاری میرے ساتھ نسبت ایسی ایسی ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہارون علیہ السلام کی۔ البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا "

Comments

Popular posts from this blog

Top 20 beautiful tourist attractions in Pakistan

پاکستان کے روایتی کھانے