تدوینِ قرآن کریم اور اس کی حفاظت
تدوینِ قرآن کریم اور اس کی حفاظت
قرآن کریم کی تعریف:۔
لفظ قرآن " قراءة" سے ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں۔ قرآن پاک ہر انسان کے لیے ہدایت اور مسلمانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ قرآن مجید اللّٰہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کے ذریعے نازل کی گئی۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اللّٰہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے زریعے سے نازل ہوا۔ قرآن مجید کو اللّٰہ تعالیٰ نے تقریباً تئیس (23) سال کے عرصے میں آہستہ آہستہ حالات واقعات اور ضرورت کے مطابق نازل فرمایا۔ جیسے جیسے قرآن مجید کی آیات نازل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھ کر سناتے اور ان کا معنی ومفہوم سمجھا دیتے۔ کچھ صحابہ کرام تو ان آیات کو وہی یاد کر لیتے اور کچھ صحابہ کرام لکھ کر محفوظ کر لیتے۔ قرآن کریم قیامت تک آنے والے انسانوں کےلئے رشدوہدایت اور راہنمائی کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید وحی کے ذریعے نازل کیا گیا۔ قرآن کریم کے نام درج زیل ہیں۔
. القرآن۔ . الفرقان
. التنزیل۔ . الزکر
. الکتاب۔ . الشفاء
. الرحمتہ۔ . ھدی
. الحق۔ . نورالمبین
. الموعظہ۔ . الحکمة
. البلاغ۔ . القول الفصل
. حبل اللہ۔ . احسن الحدیث
. العروۃ الوثقی۔ . عبرہ۔
. البرہان۔ . صراطِ مستقیم
. المیزان۔ . القرآن الحکیم
. القرآن الکریم۔ . قرآن مجید
البیان ، خیر ، مصحف وغیرہ مشہور ہیں۔
مکی و مدنی سورتیں اور ان کی تعداد:۔
جو سورتیں ہجرت سے پہلے نازل ہوئیں انہیں مکی سورتیں کہا جاتا ہے ، خواہ وہ مکہ میں نازل ہوئی ہوں یا مکہ کے گرد ونواح میں اور جو ہجرت کے بعد نازل ہوئی مدنی سورتیں کہلاتی ہیں، خواہ وہ مدینہ میں نازل ہوئی ہوں یا مدینہ کے قرب و جوار میں سورتوں کا مکی و مدنی ہونا اکثریت و اغلبیت سےہوتا ہے ورنہ بعض مکی سورتوں میں مدنی آیات اور بعض مدنی سورتوں میں مکی آیات بھی پائی جاتی ہیں۔
مکی اور مدنی سورتوں کی تعداد معلوم کرنے کا آسان طریقہ:۔
سورہ البقرہ کی 286 آیات ہیں۔
اگر نمبر 2 کو الگ کردیں تو باقی نمبر 86 بچتا ہے تو یہ مکی سورتوں کی تعداد ہے یعنی مکی سورتوں کی تعداد 86 ہے۔
مدنی سورتیں:
اگر نمبر 6 کو الگ کردیں تو باقی نمبر 28 بچتا ہے تو یہ مدنی سورتوں کی تعداد ہے یعنی مدنی سورتوں کی تعداد 28 ہے۔
سورتوں کی کل تعداد:۔
اگر نمبر 86 اور 28 کو جمع کردیں تو کل سورتوں کی تعداد 114 بنتی ہے۔ اور یہ قرآن مجید کی تمام سورتوں کی تعداد ہے یعنی قرآن کریم 114 سورتوں پر مشتمل ہے۔
اس کے علاوہ قرآن مجید میں سجدوں کی تعداد 15 ہے۔ قرآن کریم میں 60 احزاب ہیں۔ 540 رکوع ہیں۔ قرآن کریم کی 7 منزلیں ہیں سلف صالحین کا یہ معمول تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک قرآن کریم ختم کر لیتے تھے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک مقدار مقرر کی ہوئی تھی جسے حزب یا منزل کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں 6236 آیات ہیں۔ قرآن کریم کے کلمات کی تعداد 77439ہے۔ قرآن کریم کے حروف کی تعداد 340740ہے۔
مکی سورتوں کے نام:۔
سورہ الفاتحہ، الانعام ، سورہ الاعراف ، سورہ یونس، سورہ ھود، سورہ یوسف ، سورہ ابراہیم ، سورہ الحجر، سورہ النحل ، بنی اسرائیل ، الکہف، سورہ مریم ، سورہ طہ، الانبیاء ، المؤمنون ، النور، الفرقان ، الشعراء، النمل، القصص ، العنکبوت ، الروم ، سورة لقمن، السجدہ ، سبا، فاطر ، سورہ یسن، الصفت، الزمر ، المؤمن ، حم السجده ، الشوریٰ، الزخرف ، الدخان ، الجاثیة،الاحقاف،سوره ق، الذريت ،الطور ، النجم، القمر ، الواقعة ، الملك، القلم ، الحاقة، المعارج،نوح ، الجن،المزمل، المدثر،القيمة،الدھر،المرسلت سور النباء ،النزعت،عبس،التکویر، الانفطار،المطففین،الانشقاق،البروج، الطارق ،الاعلی،الغاشية، الفجر،البلد،الشمس،اليل،الضحى،الم نشرح،التين، العلق،القدر،العديت، القارعه ،التكاثر،العصر، الھمزہ ، الفیل ،قریش، الماعون،الکوثر، الکافرون،اللھب،الاخلاص،الفلق، الناس۔
مدنی سورتوں کے نام:۔
سورہ البقرہ ، سورہ آل عمران ، سورہ النساء ، سورہ المائدہ ، سورہ الانفال، سورہ التوبہ، سورہ الرعد ، سورہ الحج، سورہ النور ، سورہ الاحزاب ، سورہ محمد ، سورہ الفتح، سورہ الحجرات ، سورہ الرحمٰن ، سورہ الحدید، سورہ المجادلہ ،سورہ الحشر، سورہ الممتحنہ،سورہ الصف ، سورہ الجمعہ ، سورہ المنافقون ، سورہ التغابن ، سورہ الطلاق ، سورہ التحریم ، سورہ الانسان ، سورہ البینہ ، سورہ الزلزال ،سورہ النصر۔
قرآن کریم کا تحفظ اور اس کی عالمگیریت:۔
قرآن مجید کی حقانیت کی یہ دلیل ہے کہ اس کا ایک ایک حرف چودہ صدیاں گزرنے کے باوجود بھی محفوظ ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ کی طرح اس میں بیان کی گئی معلومات بھی قرآن مجید کے اعجاز کی دلیل ہے۔ قرآن مجید دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جو لفظ بہ لفظ آج تک اسی طرح محفوظ ہے جس طرح نازل ہوئی۔ چناچہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا زمہ لیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
ترجمہ:
" بے شک ہم نے ہی یہ زکر نازل کیا ،اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں"۔
قرآن مجید اللّٰہ تعالیٰ کی آخری اور عالمگیر کتاب ہے جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اللّٰہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت تمام جہانوں کے لیے ہے۔اس طرح قرآن مجید بھی کسی خاص وقت یا قوم کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک کے تمام انسانوں کےلئے راہنمائی کا ذریعہ ہے۔
عہد رسالت میں قرآن مجید کی جمع و تدوین:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو قرآن کریم زبانی یاد تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیات کے فوراً نزول کے بعد ان آیات کو لکھوانے کا خصوصی اہتمام کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی قرآن کریم مکمل لکھا جا چکا تھا۔عہد رسالت میں ہی قرآن مجید عموماً پتھر کی ان سلوں،چمڑے، کھجور کی چھال، اور اونٹ کے شانے کی ایسی ہڈیوں پر لکھا جاتا جو خاص اس مقصد کے لیے تیار کی جاتی تھیں۔
صحابہ کرام کے عہد میں قرآن مجید کی جمع و تدوین:۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں اگرچہ مکمل کتابی شکل میں موجود تھا۔ تاہم حکومتی سرپرستی میں قرآن مجید کی نشرو اشاعت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ قرآن مجید کو سرکاری سرپرستی میں جمع کرنے کی ضرورت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں اس وقت محسوس ہوئی جب جنگ یمامہ میں سینکڑوں حفاظ کرام شہید ہو گئے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی مدد سے مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح حاصل ہوئی، تاہم اس وقت یہ محسوس کیا گیا کہ مستقبل میں اگر اسی طرح حفاظ کرام شہید ہوتے رہے تو کئ قرآن مجید کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کے مشورے سے قرآن مجید کی جمع و تدوین کا آغاز کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشورے سے مشہور قاری قرآن حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس عظیم کام کی تکمیل کے لیے منتخب فرمایا۔
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ عہد رسالت میں وحی کی کتابت کا فریضہ انجام دیا کرتے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے مسلسل اور انتہائی محنت سے قرآن مجید کو ایک مصحف کی صورت میں جمع کیا۔ قرآن مجید کا یہ نسخہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس موجود رہا جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منتقل ہوا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی تحویل میں آگیا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ عہد خلافت میں جب مختلف قراءتوں اور لہجوں میں قرآن مجید کی تلاوت پر اختلاف پیدا ہوا تو انہوں نے ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نسخے کی مختلف نکلیں تیار کر کے مختلف صوبوں کو بھجوا دی اور سب مسلمانوں کو ایک قراءت پر متحد کر دیا۔
mash Allah
ReplyDelete